دارالعلوم کے مردِ دانا ودرویش(حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب) کی رحلت

از: مولانا نور عالم خلیل امینی

استاذ ادبِ عربی وچیف ایڈیٹر ’’الداعی‘‘ عربی

دارالعلوم دیوبند

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پُرسوز

یہی ہے رختِ سفر ، میرِ کارواں کے لیے

شوال ۱۳۹۵ھ کے اوائل اور اکتوبر ۱۹۷۵ء کے اواخر کی بات ہے دارالعلوم ندوة العلما لکھنوٴ میں مشہور ۸۵ سالہ جشنِ تعلیمی منعقد ہوا، جس میں دارالعلوم دیوبند کے اہم ارکانِ شوریٰ کے ساتھ، حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمة اللہ علیہ نے بھی شرکت کی۔ سہ روزہ تقریب کے پہلے دن فجر کی نماز کے معاً بعد امیرِ شریعت حضرت مولانا سیّد شاہ منت اللہ رحمانی رحمة اللہ علیہ (۱۳۳۲ھ/ ۱۹۱۳ء - ۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱ء) کے ساتھ دارالعلوم ندوة العلما کی مسجد کے صدر گیٹ پر، حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ سے پہلی بار اِس طرح ملاقات ہوئی کہ جب راقم نے بڑھ کے دونوں حضرات سے سلام کے بعد مصافحہ کیا، تو حضرت امیرِ شریعت رحمة اللہ علیہ نے حضرت مرحوم سے میرا تعارف کراتے ہوے فرمایا کہ یہ مولانا نور عالم قاسمی امینی ہیں، یہاں عربی زبان وادب کے ہر دل عزیز استاذ ہیں، مولانا علی میاں اِن کی بہت قدر کرتے ہیں۔ پھر امیرِ شریعت رحمة اللہ علیہ نے اِس راقم سے فرمایا: آپ اِنھیں جانتے ہیں؟ عرض کیا: حضرت! بدقسمتی سے نہیں جانتا۔ فرمایا: یہ دارالعلوم دیوبند کے موقر رکنِ شوریٰ حضرت مولانا مرغوب الرحمن ہیں۔ راقم نے عرض کیا: نام تو حضرت کا بار بار سنا ہے، لیکن دید شنید کی سعادت پہلی بار حاصل ہورہی ہے۔ امیرِ شریعت نے فرمایا: اور میرا اِن کا خصوصی تعلقِ خاطر کا رشتہ ہے، یہ میرے رفیقِ درس بھی رہے تھے، میں اِن کے ہاں بجنورآم کی دعوت کھانے اور دگر مواقع سے بھی وقتاً فوقتاً مہمانی کرنے جاتا رہتا ہوں۔

حضرت مرحوم سے یہ پہلی ملاقات تھی: چہرے پر معصومیّت، دانائی بھری خاموشی، باوقار شخصیت، بھرا پُرا بدن، کشیدہ قامت، آنکھوں میں انسیت ومحبت، سلوک وادا سے پھوٹتی ہوئی شرافت، انگ انگ سے رستی ہوئی خاک ساری وبے نفسی، چال میں متانت، پیشانی پر خاندانی رفعت کی نمایاں لکیریں، ہونٹوں پر پُرسکون تبسّم۔ چناں چہ حضرت امیر شریعت کی ساری گفتگو کے دوران حضرت مرحوم نے صرف معنی ریز مسکراہٹ ہی پر اکتفا فرمایا۔

اِس واقعے کے سات سال بعد ۱۵/شوال ۱۴۰۲ھ = ۶/اگست ۱۹۸۲ء کو راقم الحروف دارالعلوم میں نئے انتظامیہ کی عمل داری کے بعد، اُس کی مجلس شوریٰ کے حکم کے بہ موجب عربی زَبان وادب کے اُستاذ اور اُس کے عربی ترجمان ’’الداعی‘‘ کے چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے دارالعلوم وارد ہوا، تو حضرت مرحوم ہی دارالعلوم کے باقاعدہ مہتمم اور اُس کے سیاہ سفید کے مالک کی حیثیت سے برسرِعمل تھے(۱) دارالعلوم آمد کے بعد ہی راقم کو سب سے پہلے ’’الداعی‘‘ کے اِجراے نو اور اُس کے پہلے شمارے کی ترتیب وتیاری اور اِشاعت کے لیے، دارالعلوم کے انتظامی عدمِ ٹھہراؤ اور بندوبستی انتشار کے اُس عہدِ پریشاں میں حضرت مرحوم سے دن میں کئی کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔ اُس صورتِ حال میں جس میں دارالعلوم کا اُن سے نیچے کا ہر اہل کار آشفتہ سا محسوس ہوتا تھا، راقم نے حضرت مرحوم میں سمندر کی گہرائی اور صحرا کا سکون محسوس کیا۔ دارالعلوم میں اُس کے بعد بھی آشفتگی کے کئی دور آئے، جس میں اُس کے بہت سے خُدَّام تَحَیُّرْ کا شکار نظر آئے؛ لیکن اِنصرام واِنتظام کے اصل مرکز ہونے کے باوجود، اُن پر پریشاں خاطری کا کوئی عَالَم ْ کبھی طاری نہ ہوا۔ انسان کی عظمت، فکری رفعت، حاضر دماغی اور بیدار مغزی کا اصل جوہر نازک حالات اور کٹھن وقت میں ہی آشکارا ہوتا ہے۔ سطحی انسان جو فکری بلندی سے بے مایہ اور حوصلے سے تہی دامن ہوتا ہے، ایسے وقت میں بسا اوقات حواس کھوبیٹھتا ہے اور پیش آمدہ مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی کار آمد تدبیر کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔

حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمة اللہ علیہ، ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۰ء (۱۴۰۱ھ سے ۱۴۳۱ھ) تک کم وبیش ۲۹ سال دارالعلوم دیوبند کے مہتمم رہے(۲) اُن کی بے پایاں حصول یابیوں اور کارہاے اہتمام ہیں اُن کی بے حساب کام رانیوں کا سرچشمہ اُن کی نیکی وسادگی، اِخلاص و بے لوثی، دیانت داری و پرہیزگاری، شب بیداری و خوش اوقاتی، جذبہٴ احتساب اور دارالعلوم کی خدمت کو ذریعہٴ نجات سمجھنے؛ کے ساتھ اُن کا یہ عظیم وصف تھا کہ اُن کے اندر کا انسان بڑا حوصلہ مند، غیر معمولی معنوی طاقتوں (Morale)اور آہنی ارادوں کا حامل تھا۔

راقم کو یاد ہے کہ حکیم الاسلام (حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء = ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء) جیسے عظیم المرتبہ، عالمی شہرت کے حامل، علم وعمل کی جامعیت میں ممتاز، اور انسانی خوبیوں کے سراپاکی جگہ، حضرت مولانا مرغوب الرحمن رحمة اللہ علیہ کو مہتمم مقرر کیے جانے کو اُس وقت دارالعلوم دیوبند کے اکثر فضلا اور عام پڑھے لکھے لوگ ایک بے جوڑ سی بات محسوس کرتے تھے۔ عام طور پر لوگ کہتے تھے کہ دارالعلوم کی یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ علمی وعملی پہلو سے غیر معمولی انسان کے بعد اب اُس کی کشتی کا ناخدا ایک ایسا انسان بنایا گیا ہے جو اُس کے حوالے سے انتہائی ’’معمولی‘‘ ہی کہا جائے گا۔ گویا دارالعلوم آسمان سے گرا تو کھجور میں بھی نہیں اٹکا؛ بل کہ زمین پر آرہا۔

انسان عموماً کوتاہ بیں اور ظاہر پرست ہوتاہے۔ وہ عالم الغیب بھی نہیں ہوتا، اُس پر انسان کی عظمتوں اور کمالات کے پرت، فکر وعمل کی اُس کی آیندہ زندگی میں ہی کھلتے ہیں؛ اِس لیے وہ اُس کے ماضی اور حال کے اکتسابات کی روشنی ہی میں اُس پر اچھے بُرے ہونے کا حکم لگاتا ہے۔ حضرت مرحوم نہ صرف یہ کہ تقریر و تحریر کے آدمی نہ تھے؛ بل کہ انتہائی خاموش طبع واقع ہوے تھے، ضرورت کے مطابق اور اِنتہائی ضرورت کے وقت ہی لب کشا ہوتے تھے۔ درس و تدریس کا بھی کوئی مشغلہ نہیں رہا تھا، جس سے تلامذہ اور مستفیدین کی ایک جماعت بنتی اور حسبِ اِفادہ حسنِ تذکرہ کا ذریعہ ہوتی ہے۔ تقریر تو کجا عام مجلس میں ’’مشاق مقرروں‘‘ کی طرح دعائیں بھی روانی سے اور اثرانگیز انداز میں نہیں کراپاتے تھے؛ اِس لیے شروع کے دو تین برسوں میں تو اور بھی لوگ اُنھیں ’’بے زبان‘‘ بل کہ ’’بے علم‘‘ اور ’’غیر سودمند مہتمم‘‘ تصوّر کرتے تھے۔

لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی عظمتوں کے پرت کھلنے لگے اور لوگوں کو ماننا پڑا کہ دارالعلوم کے حوالے سے وہ ’’وقت کے مطلوبہ آدمی‘‘ ہیں جسے عربی میں ’’رَجَلُ السَّاعَةِ‘‘ کہا جاتاہے۔ بالخصوص اِنتظام واِنصرام کے باب میں وہ ایسے ’’بے نظیر‘‘ ثابت ہوے کہ اُن کی وفات کے بعد لوگوں کی زبان پر عام طور پر یہ بات ہے کہ پتا نہیں اب ایسا ’’مردِ دانا‘‘ (رجلِ رشید) دارالعلوم کو ملے گا کہ نہیں؟

یہاں یہ ریکارڈ کرنا ضروری ہے کہ دارالعلوم دیوبند صلحاے اُمت کے مطابق اِلہامی تعلیم وتربیت گاہ ہے۔اُس کی بنیاد واقعتا تقویٰ پر استوار ہوئی ہے، اِسی لیے اُس کو ہر خاص وعام میں عجیب سی محبوبیت ومقبولیت اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ خداے کریم نے ہمیشہ اُس کی حفاظت کی ہے، بڑے سے بڑے طوفان میں اُس کی کشتی گرداب میں نہیں پھنسی، نازک سے نازک وقت میں (جو اگر کسی اور عام اِدارے اور تعلیم گاہ پر آتا تو بالیقین اُس کا وجود ختم ہوجاتا) صاف طور پر محسوس ہوا کہ غیبی ہاتھ نے اُس کو ہر طرح کے خطرے سے نکال اور ہر قسم کے ضرر سے بچالیا ہے۔ عروج وزوال کی سُنّتُ اللہ فرد، جماعت اور اِدارے کے ساتھ اپنا اثر دکھاتی رہی ہے اور دکھاتی رہے گی۔ ماضی کے ایسے اصحابِ یقین وعزیمت افراد اب دارالعلوم کو مُیَسَّرْ ہیں نہ امت مسلمہ کو؛ لیکن اِس وقت تک دارالعلوم کا ہر طوفان سے بہ خیروخوبی نکل آنا، یہ بتاتا ہے کہ اللہ ربّ العزّت کو ابھی بھی دارالعلوم کا کردار ادا کرتا رہنا منظور ہے اور نمود ونمایش کی پرستاری کے اِس دور میں اور مادیت کے سیلِ بلا خیز کی اِس دنیا میں وہ اُس کو حسبِ سابق محوِ عمل رکھنا چاہتا ہے؛ تاکہ وہ یہ ثابت کرے کہ عمل اور کردار سے ہی وہ کسی فرد یا جماعت کو سرخ روئی عطا کرتا ہے نہ کہ بات بنانے، شور مچانے اور پروپیگنڈہ کرنے سے۔ اوّل الذکر فرد یا جماعت کو وہ اُسی طرح کی ساحرانہ محبوبیت عطاکرتا ہے جیسی دارالعلوم دیوبند کو اور ثانی الذکر فرد یا جماعت کو سخنِ بسیار اور ساری کوششوں کے باوجود، خلقِ خدا کے نزدیک کسی لائقِ تذکرہ مقبولیت سے ہم کنار نہیں کرتا۔

اِسی لیے ہمیں یقین ہے کہ دارالعلوم کی خدمت بالخصوص اُس کے اعلیٰ اِنتظامی منصب (اہتمام) کے لیے کسی شخصیت کے انتخاب میں ربِّ کریم کی توفیقِ خاص کارفرمارہتی ہے اور یہ توفیقِ ربّانی اُس کو ہمیشہ صحیح سمت میں چلنے اور غلط سمتوں میں قدم بڑھانے سے بچے رہنے کے لیے راہ نمائی کرتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ بہ ظاہر وہ شخصیت ’’معمولی‘‘ ہوتی ہے؛ لیکن اللہ پاک اپنی قدرت سے اُس سے بڑے بڑے کام لیتاہے اور دارالعلوم کو اپنا کردار ادا کرتے رہنے کے لیے جن دیدہ و نادیدہ اور مادی ومعنوی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اُس کے ذریعے اُسے مُیَسَّرْ کراتا رہتا ہے اور ’’وَلِلّٰہِ جُنُودُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ‘‘ (الفتحَ۴؛۷) کی سچائی کے مظاہر سامنے لاتا رہتا ہے۔ انسان اگر بہت باصلاحیت بھی ہو، تو خدا کی توفیق کے بغیر بالکل بے صلاحیت ہوتا ہے اور بے صلاحیت بھی ہو، تو خدا کی توفیق سے بہت باصلاحیت ہوتا ہے۔ بعض دفعہ انسان میں علمی صلاحیت اور اُس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی شہرت وعزت ونیک نامی نہیں ہوتی؛ لیکن کسی ذمے داری کے بادلِ ناخواستہ قبول کرلینے کے بعد، اُس میں بے پناہ خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں اور اِنتظامی سطح پر، اُس سے ایسے کارنامے ظہور میں آتے ہیں کہ لوگ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ اسباب کے ذریعے مُسَبَّبَات کے ظہور میں آنے کا یقین رکھنے والا ظاہر پرست انسان اُس وقت انگشت بہ دنداں رہ جاتا ہے، جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ بہ ظاہر ’’بے ہنر‘‘ نے، ہنرمندی کے اتنے کام کیوں کر انجام دے لیے؛ لیکن خداے وحدہ لاشریک کی قدرت علی الاطلاق پر یقین رکھنے والے کو اِس سلسلے میں کوئی حیرت نہیں ہوتی۔

حضرت مولانا مرغوب الرحمن کو جس وقت حضرت مولانا قاری محمد طیب جیسے آسمانِ علم وکمال کے تعاون کے لیے کارگزار مہتمم اور اُن کے مستعفی ہوجانے کے بعد باقاعدہ مہتمم نام زد کیاگیا، اُس وقت کی مجلسِ شوریٰ میں بھی خاصے اہلِ علم وکمال کی کوئی کمی نہ تھی؛ لیکن ارکانِ شوریٰ نے بالاتفاق اِصرار کے ساتھ حضرت رحمة اللہ علیہ ہی کو اِس منصبِ عالی کے لیے مقرر کیا۔ کردار وعمل کی زمین پر اللہ نے اُن سے جو کام کرائے، اُن سے واضح ہوگیا کہ اِس بڑی ذمے داری کے اِس عہدے کے لیے، اُن کا انتخاب توفیقِ ربّانی کی دین تھا۔

تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن

وہ کام جو اِنسان کا کردار کرے ہے

حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب نے دارالعلوم کی زمام اہتمام ایسے وقت میں سنبھالی جب وہ شدید خلفشار کے طویل دور سے پوری طرح نکل نہیں سکا تھا؛ کیوں کہ اُس کے منفی اثرات کا تسلسل ہنوز باقی تھا۔ ایسے حالات میں سارے انتظامی شعبوں کو ازسرِ نو استوار کرکے اُنھیں سرگرمِ سفر کرنا، ملازمین ومدرسین کا اعتماد بحال کرنا اور طلبہ کے اپنے مقصد کی راہ پر محوِعمل رہنے کا حوصلہ پانے کے لیے، قدرتی فضا بنانا؛ جُوئے شیر لانے کا عمل تھا۔ اُنھوں نے اپنی خدا ترسی وشب بیداری، دارالعلوم کے لیے اپنی دل سوزی، اپنے غیرمعمولی تدبّر، اپنی عالی حوصلگی، کاروانِ عمل کے ہر فرد کو ساتھ لے کر چلنے کی ہزار خوبیوں کی اپنی جامع خوبی، خاموشی کے ساتھ محض کام کرتے رہنے کی اپنی ہمّت اور ہمہ وقت کی فکر مندی کی وجہ سے، نہ صرف حالات کی نزاکتوں پر قابو پالیا؛ بل کہ سکون واِطمینان کی ایسی فضا بہ روے کار لانے میں کام یاب رہے کہ اُن کے کم وبیش تیس سالہ دورِ اہتمام میں پھر کبھی کوئی انتشار رونما نہ ہوا، جس کی وجہ سے دارالعلوم نے تعلیمی وتعمیری سطحوں پر لائقِ ذکر ترقی کی۔

تعمیری سطح پر تو کہنا چاہیے کہ دارالعلوم کی پہلے کی بہ نسبت تقریباً تین گنی عمارتیں اُنھی کے دور میں تعمیر ہوئیں، دارالعلوم کی مشہور وپرشکوہ و لمبی چوڑی جامع رشید جو فن تعمیر کا شاہ کار ہے، اُنھی کے خلوصِ بے کراں کی دین ہے۔اعظمی منزل کی سہ منزلہ عمارت، مدرسہ ثانویہ کی عمارت، شیخ الاسلام منزل کے نام سے سہ منزلہ ہاسٹل، حکیم الاُمت منزل کے عنوان سے پرشکوہ درجہٴ حفظ کی عمارت جس میں درجہٴ حفظ کے طلبہ کی تدریس ورہایش کا بھی انتظام ہے، اساتذہ کے لیے مُتعَدِّدْ فیملی کوارٹر، حضرت مولانا وحیدالزماں کیرانوی رحمة اللہ علیہ (سابق مددگار مہتمم وناظم تعلیمات واستاذ ادب وحدیث ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰ء - ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء) کے ذریعے دارالاہتمام کا دوسرا ہال اور دائیں بائیں دارالاہتمام میں جانے کے زینے، کتب خانے کے نیچے سے اِحاطہٴ دفاتر سے اِحاطہٴ کتب خانہ سے ہوکر دارجدید کی طرف جانے کا کشادہ راستہ، کتب خانہٴ دارالعلوم کی توسیع، نیز کتب خانے کے لیے دارجدید کی جانبِ غرب میں مستقل مضبوط اورمتعدد منزلہ کشادہ عمارت کی تعمیر (جو اب قریب التکمیل ہے) اور دارجدید نام کی سب سے بڑی طویل الذیل طلبہ کی رہایش گاہ کی تعمیر نو (جس کا بڑا حصہ مکمل ہوچکا ہے اور باقی زیر تعمیر ہے) اسی طرح رواقِ خالد کے دائیں اور بائیں دو مزید ہاسٹلوں کی تعمیر، اِحاطہٴ مطبخ میں دارالقرآن کے نام سے کئی کمروں پر مشتمل ہاسٹل، دارالعلوم کی ساری اراضی کی مضبوط اور اونچی فصیل بندی، بہت سی اراضی کی خریداری، جن میں سے بعض پر مذکورہ عمارتوں میں سے بعض عمارتیں تعمیر ہوئیں، بالخصوص محلہ خانقاہ میں غیرمسلموں کے مکانات کی خرید،جس سے یہ محلہ ہندومسلم آمیزش کے خطرے سے پاک ہوگیا اور عام مسلمانوں کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ بھی یہاں آبسیں، پانی کی دو بڑی ٹنکیوں کی تعمیر، مہمان خانہ کی تعمیر نو، ایک بڑے جنریٹر کی خرید جس سے پانی کی ٹنکیاں بھی بہ وقت ضرورت بھری جاسکیں اوراسی کے ساتھ ایک چھوٹے جنریٹر کا انتظام جو درس گاہوں اور دفاتر میں بجلی کے منقطع ہونے کی صورت میں (جودیوبند میں روزمرہ کا معمول ہے) روشنی اور پنکھوں کے چلتے رہنے کو یقینی بناتا ہے، نیز جس کی وجہ سے دارالعلوم میں رات کے بارہ بجے تک بھی بجلی کے غائب ہونے کی صورت میں روشنی کا معقول انتظام رہتا ہے؛ یہ سارے کارنامے اُنھی کے دورِ مسعود میں اور اُنھی کی فکر مندی سے روبہ عمل آئے۔

حضرت مرحوم جب تک صحت مند رہے اور چلنے پھرنے کی طاقت رہی، وہ زیرِ تعمیر عمارتوں کو تقریباً روزانہ ہی کم از کم ایک بار ضرور موقع پر دیکھنے جاتے، وہاں دیر تک کھڑے رہتے، مختلف زاویوں سے اُس کا مُعَایَنَہْ کرتے، موقع پر موجود ٹھیکے دار اور اہم معماروں سے تعمیری پیش رفت پر تبادلہٴ خیال کرتے، اپنے طورپر اُنھیں ضروری مشورے دیتے اور عمارت میں کسی جگہ کوئی مفید ترمیم وتنسیخ سمجھ میں آتی تو اُنھیں اُس کی صَلاح دیتے۔ جامع رشید کی تعمیر سے حضرت کو خصوصی دلچسپی تھی، یا د ہے کہ جب اُس کی تعمیر شروع ہوئی، تو اُس کے تعمیری دورانیے میں جو سال ہا سال پرمحیط رہا، دن میں کئی کئی بار جاے تعمیر پر تشریف لے جاتے، کبھی کبھی گھنٹہ آدھ گھنٹہ وہاں بیٹھ کے تعمیری عمل کا بہ غور مشاہدہ کرتے۔ اُن دنوں حضرت کی صحت بہت اچھی تھی، تیز رفتاری سے چلتے تھے، اِس لیے دارالعلوم کے اِحاطے میں جہاں بھی کوئی تعمیری سرگرمی جاری ہوتی، وہاں پہنچ کے مشاہدہ کرتے اور دارالعلوم کے مختلف شعبوں کا بھی اچانک مُعَایَنَہْ فرمانے تشریف لے جاتے۔ سچ یہ ہے کہ وہ دارالعلوم کے سارے کاموں سے اِس طرح دلچسپی لیتے تھے کہ بہت سے لوگوں کو اپنے ذاتی کاموں سے بھی اُتنی دلچسپی نہیں ہوتی۔

تعلیمی وثقافتی سطح پر بہت سے نئے شعبے اُبھرے: معین المدرسین کا نظام استوار ہوا، جو اکابر کے زمانے میں کبھی ہوا کرتا تھا، تخصص فی الحدیث اور تکمیل العلوم کے شعبے قائم ہوے، عالمی ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس کے بعد دارالعلوم میں مستقل شعبہٴ ختم نبوت قائم ہوا، رابطہٴ مدارس اسلامیہ کے نام سے ہندگیر تنظیم قائم ہوئی، فرق باطلہ کے رد کے لیے محاضرات کا مستقل نظام روبہ عمل آیا، نیز تحفظ سنت شعبہ اور شعبہٴ ردّ عیسائیت قائم ہوے، شیخ الہند اکیڈمی تازہ دم اور فعّال ہوئی، انگریزی زبان وادب کے دوسالہ شعبے کا قیام ہوا، جس کے بعد ہی بہت سے مدارس نے طلبہٴ مدارسِ عربی کے لیے، انگریزی تعلیم کا اسی طرح کا نظام اپنے یہاں قائم کرنا شروع کیا، شعبہٴ کمپیوٹر وانٹرنیٹ قائم ہوا، جس میں طلبہ کی ٹریننگ کا یک سالہ نظام زیر عمل آیا۔ دارالعلوم کے امتحانی نظام میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ سالانہ امتحان کے علاوہ مزید دو امتحانات: سہ ماہی وشش ماہی ہوا کرتے تھے؛ لیکن ضیاعِ وقت کے ساتھ ساتھ تقریری ہونے کی وجہ سے اُن سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہوپاتا تھا، لہٰذا صرف دو امتحانات: شش ماہی اور سالانہ کردیے گئے اور شش ماہی کو سالانہ ہی کی طرح باقاعدہ تحریری بنادیاگیا، جس سے طلبہ کی صلاحیت سازی کا عمل زیادہ کارگر اور مفید ثابت ہوا۔ طلبہ کی تعداد حضرت حکیم الاسلام رحمة اللہ علیہ کے دور میں صرف اٹھارہ (۱۸۰۰) ہوا کرتی تھی اسے بڑھا کر ساڑھے تین ہزار اور چار ہزار (۳۵۰۰- ۴۰۰۰) کے قریب کردی گئی، طلبہ کے وظائف میں معقول اِضافہ کیاگیا۔ بہت سے شعبوں کے وظائف لائقِ تذکرہ اور ریکارڈ ہیں، طلبہ کے کھانے میں بھی مہینے میں دوبار پھر تین بار بریانی کاانتظام ہوا۔ امتحانات کے زمانے میں ساری درس گاہوں کے کھلے رہنے کا انتظام ہوا، طلبہ کی سیکڑوں ضلعی وصوبائی انجمنوں کو معنوی مدد دی گئی اور اُن کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

مالیہ کی فراہمی کا کارگر اور فعال نظام قائم ہوا اور دارالعلوم کا بجٹ تقریباً ۱۴ کروڑ تک پہنچ گیا، جب کہ حضرت حکیم الاسلام رحمة اللہ علیہ کے بعد حضرت مرحوم کو صرف (۶۰) سا ٹھ لاکھ کے بجٹ کا دارالعلوم ملا تھا، حضرت مرحوم کی یہ خوبی رہی کہ جب تک وہ زیادہ ہوش میں اور زیادہ فعّال رہے دارالعلوم کے حساباتِ آمد وصرف کے ایک ایک پرزے کو بہ ذاتِ خود دیکھتے تھے، وہ دارالعلوم کے ملازمین کا بعض دفعہ ایک دو روپے کے اُن مصارف پر موٴاخذہ کرلیتے تھے جنھیں وہ غیر ضروری، بے قاعدہ یا ناروا سمجھتے تھے۔ یہ راقم اہتمام میں جاتا، تو اکثر وہ محاسبی کے رجسٹروں اور آمد و صرف کے واوچروں کو دیکھتے ہوے نظر آتے۔ دارالعلوم کے وسیع تر ماحول میں آمد وصرف کو دقتِ نظر سے جانچنے اور مالی شعبے کی شفافیت کو مطلوبہ معیار پر باقی رکھنے کی ذاتی کوشش کرنے کے حوالے سے وہ منفرد شناخت کے حامل مہتمم تھے۔ دارالعلوم کے تعلق سے اُن کی امانت ودیانت؛ بل کہ دارالعلوم کے پیسے کے سلسلے میں انتہائی بخالت ضرب المثل بن گئی تھی۔ ہر چند کہ اُن کی اِس ’’بخالت‘‘ سے بعض دفعہ بعض پریشانیاں کھڑی ہوجاتی تھیں؛ لیکن اِس سے دارالعلوم کے تئیں اُن کی غیرمعمولی اپنائیت اور قوم کے پیسے کی حد درجہ نگہ داشت کی اُن کی خوبی اُجاگر ہوتی ہے، جو ہر ایک کے لیے لائقِ رشک وقابل تقلید تھی۔ دارالعلوم میں آمد وصرف کا نظام بہت بھاری بھرکم ہے، حضرت مرحوم اپنے تئیں سارے چھوٹے بڑے مصارف پر نگاہ رکھنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیتے تھے؛ حضرت مرحوم کی طرح حساب کتاب پر بہ راہ راست نگاہ رکھنے والا سربراہِ اعلیٰ کسی ادارے کو شاید ہی نصیب ہوا ہوگا۔

حضرت مرحوم کی بہ طور مہتمم کے ایک بڑی شناخت اُس کے لیے ہمہ وقت کی فکرمندی تھی، ایسا لگتا تھا کہ اُنھوں نے اُسی کے غم کو اپنا غم بنالیا ہے۔ دارالعلوم کے لیے سوچنا، اُس کے مسائل کو اوڑھ لینا، اُس کی ضروریات، ترقیات اور اُس کی ہمہ جہت بھلائیوں کے لیے، اپنے ذہن میں خاکے مرتب کرتے رہنا، لگتا تھا کہ اُن کی دوا، غذا اور اُن کی راحت و عافیت کا ناگزیر سامان ہے۔ اللہ نے اُنھیں خوش حال پیدا کیا تھا، بڑی زمین جائداد کے مالک تھے، شہر بجنور میں سامانِ راحت سے بھرا پُرا اُن کا محل نما اپنا گھر اور اُن کے گھر کے پاس ہی اُن کے سارے اہلِ خاندان کے مکانات تھے، جہاں اُنھوں نے بچپن سے بڑھاپے تک کی عیش وراحت کی زندگی گزاری تھی؛ لیکن ان سارے اسبابِ راحت کو چھوڑکر دارالعلوم کی مسجدِ قدیم کے اِحاطے کے ایک بالائی کمرے میں سادہ سی زندگی گزارتے، اپنے مصارف سے تیار کرائے گئے مطبخ کے کھانے پر اکتفا کرتے، بڑھاپے کی کم زوری اور اُس سے پیدا شدہ بہت سے عوارض اور تکالیف کو جھیلتے اور نہ صرف کمرے کا کرایہ اداکرتے؛ بل کہ دارالعلوم سے کسی طرح کا ادنیٰ سے ادنیٰ فائدہ اٹھانے کا بھی معاوضہ پیش فرماتے۔ اگر کسی مجبوری سے، مہینے دو مہینے بعد گھر جاتے، تو وہاں بھی ہر وقت دارالعلوم ہی کی فکر ستاتی رہتی، ٹیلی فون سے، آنے جانے والوں کے ذریعے، یا بہ وقت ضرورت کسی آدمی کو باقاعدہ دارالعلوم بھیج کر، دارالعلوم کے احوال اور مسائل سے مکمل طور پر واقف رہنے کی کوشش کرتے۔

زندگی کا تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کا کوئی کام صرف محنت اور سعیِ پیہم سے اُتنا انجام پذیر نہیں ہوتا، جتنا فکرمندی سے، جس کی وجہ سے وہ کام ذہن پر ہمہ وقت مسلط رہتا ہے۔ حضرت مرحوم دارالعلوم کے متعلقہ کاموں کو نہ صرف محنت اور لگن سے انجام دیتے تھے؛ بل کہ اُس کی ساری متعلقہ ذمے داریاں شب وروز کے سارے لمحات میں اُن کے ذہن پر مسلط رہتیں اور ہر وقت وہ اُنھی کے متعلق سوچتے رہتے۔ اُن کی وفات سے صرف ۱۹ دن پہلے کی بات ہے (۳) یعنی شنبہ: ۱۳/ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ مطابق ۲۰/نومبر ۲۰۱۰ء کی کہ راقم، دارالعلوم کے دوایک اساتذہ کے ساتھ، اُن کی ملاقات کو اُن کے دولت کدے، واقع محلہ قاضی پاڑہ شہر بجنور پہنچا، حضرت سے ملاقات ہوئی، تومصافحہ اور خبرخیریت معلوم کرنے کے معاً بعد فرمایاکہ دارالعلوم میں قربانی کے کتنے جانورآئے تھے اور یہ کہ اس سلسلے کی کمیٹی ٹھیک سے بن گئی تھی اور پتہ نہیں صحیح ریٹ پرچمڑے کی فروخت ہوئی کہ نہیں؟ راقم کے ساتھ جواساتذہٴ کرام تھے اُن میں سے بعض کمیٹی کے ممبران میں تھے، اُنھوں نے کہا: حضرت چمڑے ماشاء اللہ اچھے ریٹ سے گئے، تو وہ مطمئن ہوگئے۔ ہم لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ صحت کے اِس عالم میں کہ وہ گھل کر ہڈیوں کا مجموعہ بن گئے ہیں دارالعلوم اور اُس کے مفادات ہی کی اُنھیں لگی ہوئی ہے، اِس حالت میں تو آدمی کو اپنی بھی خبر نہیں ہوتی، ۱۰۰ سال کا بوڑھا آدمی(۴) جو عرصے سے طرح طرح کے امراض اور بڑھاپے کی کم زوریوں اور اُس کے مختلف الاقسام عوارض کا شکار ہے، اُس کو صرف اپنے محبوب اِدارے کی فکر ہے اور کسی اور بات کی نہیں؟ ہم لوگوں کو بہت خوشی ہوئی کہ اللہ پاک نے اِس عمر میں بھی اُن کے ذہن اور حافظے کی کارکردگی کو پوری طرح محفوظ رکھا ہے اور اُن کا دماغ مکمل طور پر اپنا کام کررہا ہے، ورنہ اِس عمر اور اتنے امراض کی حالت میں آدمی کا ذہن کلاًّ یا جزءً ا کام نہیں کرتا۔ یہ اُن کی دین داری اور تقویٰ شعاری کی برکت تھی اور اپنے خاندان کے عظیم بزرگوں کی نیکیوں کی جو دارالعلوم کے دیرینہ خادم اور سچے بہی خواہ رہے تھے۔

دارالعلوم میں قربانی کے مسئلے کے بعد حضرت نے فرمایا کہ میں عیدالفطر اور عیدالاضحی دونوں کی نمازیں نہیں پڑھ سکا اور یہ کہتے ہوے اُن کی آواز بھرّاگئی اور وہ آب دیدہ ہوگئے۔ ہم لوگوں نے اُنھیں تسلّی دی کہ حضرت! آپ کی نیت چوں کہ نماز پڑھنے کی تھی اور آپ میں اس کی سکت نہ تھی، اِس لیے آپ کو نماز کا ثواب مل گیا، اِن شاء اللہ آپ کا رب آپ کو محروم نہ کرے گا، آپ خاطر جمع رکھیں کہ آپ کو ثواب مل چکا۔ یہ سن کر اُن کے چہرے پر ایک چمک سی نمودار ہوئی اور وہ قدرے مطمئن سے نظر آئے۔

حضرت مرحوم کو دارالعلوم کی عالمی شہرت کو مزید عالَمِیّت دینے، بالخصوص عالمِ عرب کے علما ومفکرین سے رابطہ رکھنے سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ وہ جب تک صحت مند رہے راقم کو تاکیدکرتے رہے کہ عرب ممالک کے سفارت خانوں کو رمضان المبارک عیدالفطر وعید الاضحی اور اُن ممالک کے قومی دن کے موقع سے تہنیتی خطوط ضرور روانہ کیے جائیں، وہ دلچسپی کے ساتھ راقم سے خطوط تیار کرواتے اور اُنھیں ٹائپ کرواکے روانہ کرنے کا حکم فرماتے۔ سعودی عرب، کویت اور عرب اِمارات وغیرہ کے اہم علما کو بھی اِس موقع سے مبارک بادی کے خطوط روانہ کرنے کا اہتمام کرتے۔ راقم کو ۱۴۰۴ھ کے شعبان میں دارالعلوم کی طرف سے بہ طورِ خاص سعودی عرب کے علما، اہلِ صحافت اور پڑھے لکھے طبقے سے ملنے کے لیے سعودی عرب بھیجا۔ اِس سلسلے میں راقم سے جو کچھ بن پڑا اُس نے کیا۔ حضرت مرحوم اُس کے وہاں قیام کے دوران فون اور خطوط کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہے۔

راقم کے نام جب بھی عالم عربی سے کوئی دعوت نامہ کسی کانفرنس یا کسی تقریب میں شرکت کا ملتا، حضرت مرحوم سے جب اُس کا تذکرہ کیاجاتا، تو سفر کے تعلّق سے بہت دلچسپی لیتے اور جو سہولت اُن کے بس میں ہوتی، اُس کے فراہم کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ وہ چاہتے تھے کہ دارالعلوم کے اساتذہ بیرونِ ملک، بالخصوص عالمِ عربی کاسفر موقع بہ موقع ضرور کریں؛ تاکہ دارالعلوم کا بیرونی ممالک سے رابطہ مضبوط ہو اور وہاں کے لوگ اُس کے کام اور نام سے اچھی طرح واقف ہوں۔

حضرت کی اِسی دلچسپی کے پیشِ نظر، اُن کی شدید کبرسنی میں جب سعودی عرب کی طرف سے حج کا دعوت نامہ، اُن کے نام آیا اور رابطہ عالمِ اسلامی کی طرف سے ایک سے زائد بار اُس کی بعض اہم کانفرنسوں میں، اُس کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن ترکی کی طرف سے اُنھیں بہ اِصرار مدعو کیاگیا اور اُنھوں نے اپنے ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے عذر کرنا چاہا، تو اِس راقم آثم نے، اُن کی ہمت بڑھائی اور بہ عجلت اور بہ کثرت وہاں کے متعلقہ ذمے داروں سے رابطہ کرکے اُن کے سفر کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ اللہ کے فضل سے حضرت کو، اُن اسفار کے لیے آمادہ ہوجانے کی ہمت ہوئی اور اپنے فرزند برادرمکرم مولانا انوار الرحمن صاحب قاسمی کی رفاقت میں اُن کے یہ اسفار ہوے، اِس سلسلے میں اگر کسی مقالے اور تحریر کی ضرورت محسوس کی گئی، تو راقم کو اُسے بھی تیار کرنے اور حضرت کی بے پناہ دعاؤں اور اُن کی خوش نودی و مسرت کے حصول کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ وہ کم گو تھے، اِس لیے زبان سے تو زیادہ کچھ نہ کہتے تھے؛ لیکن ایسے موقع سے اُن کی خوشی اور راقم کے لیے دعاؤں کی لکیریں اُن کے چہرے پر، وہ واضح طور پر پڑھتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی خاموشی ہزاروں گویائیوں پر بھاری لگتی تھی۔ وہ ایسے مواقع سے واپسی پر کوئی خاص تحفہ راقم کے لیے ضرور لاتے اور اُس کی اپنے پاس حاضری کے وقت بہ ذاتِ خود اُس کو پیش فرماتے یا کسی خادم کے ذریعے اُس کی رہایش گاہ پر بڑے اہتمام سے بھیجواتے۔

حضرت مرحوم کم گو اور خاموش مزاج تھے؛ لیکن نہ صرف امتِ مسلمہ؛ بل کہ عالمی مسائل پراخبار نویسوں، نامہ نگاروں اور ٹیلی وژن کے مختلف چینلوں کے نمایندوں کو (جو ملک کا سب سے بڑا اور تاریخی اسلامی ادارہ ہونے کی وجہ سے دارالعلوم کثرت سے آتے رہتے ہیں) بہت جچا تلا اور بصیرت مندانہ جواب دیتے تھے، جس سے جہاں امتِ مسلمہ کے تئیں اُن کی دل سوزی وفکر مندی کا اندازہ ہوتاتھا، وہیں عالمی حالات وواقعات سے اُن کی آگاہی اور صحیح صورتِ حال کی اُن کی جان کاری کا بھی پتا چلتا تھا۔ وہ اخبارات کا پابندی سے مطالعہ کرتے اور ہندی مسلمانوں، نیز عالم کے تمام مسلمانوں کے مسائل کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ یہ راقم جب اُن کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا اور صبح کا وقت ہوتا، تو عموماً وہ اخبار کے اوراق کھولے دونوں ہاتھوں سے اٹھائے محو مطالعہ ہوتے، راقم سلام کرتا، تو اخبار ہاتھ سے ڈال دیتے اور مختلف داخلی وخارجی اور ملکی وعالمی بالخصوص اسلامی مسائل اور حالات پر تبادلہٴ خیال کرنے لگتے۔

حضرت مرحوم خاصے مردم شناس تھے۔ دارالعلوم کے ویسے تو سارے اساتذہ کا بڑا احترام کرتے تھے؛ لیکن جن اساتذہ کو وہ دارالعلوم کے لیے دور رس فوائد کا حامل اور اپنے تجربے، استقرا اور ذہنی مطالعے کی روشنی میں سچا خیرخواہ سمجھتے تھے، اُن کے ساتھ احترام ومحبت کا خصوصی معاملہ کرتے تھے۔ اِس سلسلے میں اُن کے ذہن میں خانے بنے ہوے تھے اور اُن میں سے ہر ایک کو اُسی خانے میں رکھتے تھے جو اُنھوں نے اُس کے لیے متعین کیاہوتا تھا اور اُسی ’’درجہ بندی‘‘ کے اعتبار سے وہ اُن کے ساتھ حسنِ سلوک اور شفقت کا معاملہ کرتے تھے۔ تیس سالہ اہتمام کے طویل دورانیے کے دوران، اُنھیں بہ خوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اُن میں سے کس کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اِسی لیے اُن میں سے ہر ایک اور عام اساتذہ وملازمین، اُن سے میرے علم ومطالعے کے مطابق ہمیشہ خوش رہے، یاکم از کم ناراضگی اور دل شکنی کا شکار نہ ہوے۔

راقم بھی سمجھتا ہے کہ وہ پورے خلوص سے، اُس کے متعلق بہت اچھی رائے رکھتے تھے، اِسی لیے اُس کے ساتھ بہت شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے۔ وہ بہت شرمندہ ہوتا تھا جب وہ آم کی سالانہ دعوت کے موقع پر شکر کی اُس کی بیماری کی وجہ سے، اُس کی غیرحاضری کو نوٹ کرتے ہوے، اُس کی رہایش گاہ پر طرح طرح کے آموں کا ایک دوکارٹون ضرور بھیجواتے۔ اُس کے بعد جب بھی پہلی مرتبہ حاضر ہوتا، فرماتے آپ نے کوئی آم چکھا کہ نہیں؟ اُن کی دل جوئی کے لیے کہتا: حضرت فلاں تخمی آم ناچیز نے چوسا ہے بہت مزے دار تھا، یہ سن کر بہت خوش ہوتے۔ اِسی طرح پَرْوَلْ (ایک قسم کی ترکاری) کے موسم میں وقتاً فوقتا اپنے ساتھ بہت سارا پَرْوَلْ لاتے اور خاصی مقدار میں راقم کے پاس بھیجواتے؛ کیوں کہ حضرت کو معلوم تھا کہ اُس کو پرول بہت پسند ہے اور اُس کے علاقہ بہار میں وہ کثرت سے ہوتا ہے اوراہم ترین سبزیوں میں شمار ہوتا ہے۔ بجنور میں گنگا کے کنارے چوں کہ کچھ اہلِ بنگال غیرمسلم آبسے ہیں؛ اِس لیے اب وہ اُس کی کھیتی کرنے لگے ہیں اور وہاں وہ اپنے موسم میں بہ کثرت ملنے لگا ہے۔

بعض دفعہ ایساہوا کہ بعض مسائل میں راقم کو حضرت سے شکایت ہوئی اور اُس نے اُن سے اُس کا برملا اِظہار بھی کیا؛ لیکن حضرت کو اُس سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی نہ حضرت نے اُس کا اُس سے اِظہار کیا، نہ راقم سے کبھی اپنی کسی ناگواری کی طرف اِشارہ کیا، جب بھی ملا وہ بہت انبساط وفرحت سے کھل کے ملے اور ایسا لگا کہ وہ راقم کی آمد کے انتظار میں تھے۔ اللہ اُنھیں بہت نوازے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اُن کے اِخلاص کی برکت سے دارالعلوم کو ہر خرخشے سے محفوظ رکھے۔

راقم کو چوں کہ اکثر تلوے میں یا پاؤں کی کسی انگلی میں شکر کے مرض کی وجہ سے زخم رہا کرتا ہے، اِس لیے جب بھی حضرت سے ملا، حضرت نے ضرور معلوم کیا کہ آپ کا زخم اِس وقت مندمل ہے؟ اگر راقم عرض کرتا کہ زخم مندمل نہیں ہوسکا، تو آہستہ آواز میں شفا کی دعا دیتے اور اگر عرض کرتا کہ الحمدللہ اِس وقت کوئی زخم نہیں ہے تو بہت خوش ہوتے۔

اُن کی کم گوئی کی خوکی وجہ سے یہ ضرور ہوا کہ بعض دفعہ بعض لوگوں کو یہ کہتے سناگیا کہ بڑا سے بڑا اور اچھے سے اچھا کام کرلو؛ لیکن مہتمم صاحب تعریف نہیں کرنے کے، وہ کبھی حوصلہ نہیں بڑھاتے نہ ماشاء اللہ یا ’’واہ‘‘ کا لفظ ادا فرماتے ہیں، بس مہر بہ لب رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے راقم ہمیشہ یہ کہتا کہ آپ اُن کے چہرے کو پڑھا کیجیے، وہ خوش ہوتے ہیں، تو اُن کا چہرہ دمک اٹھتا ہے اور خوشی کی لکیریں اُن کے چہرے پر نمایاں طور پر ابھرآتی ہیں، اُن کی کم گوئی اُنھیں لب کشا ہونے سے مانع رکھتی ہے۔ اُس کی دلیل یہ ہے کہ ڈانٹنے اور جھڑکنے کی جگہ پر بھی وہ کسی کو ڈانٹتے ہیں نہ اُس سے سخت کلامی کرتے ہیں؛ لیکن اچھے بُرے انسانوں کے ساتھ وہ الگ الگ معاملہ کرتے ہیں اور وہ انسانوں اور اُن کے کاموں کی بہ خوبی شناخت رکھتے ہیں۔ تیس سالہ دورِ اہتمام میں اُنھوں نے کسی سے سخت کلامی کی نہ کسی سے اُن کی بدزبانی کبھی ریکارڈ کی گئی۔ وہ طویل العمری اور انتہائی پیرانہ سالی کے باوجود جھنجھلاتے بھی نہ تھے، ورنہ اُن سے کم عمر کے سن رسیدہ لوگ بھی عموماً ’’بے صبرے‘‘ ہوجاتے ہیں اور اُن کا پیمانہٴ صبر جلد جلد چھلکنے لگتا ہے۔ غصہ آنا، خفا ہوجانا، بات بات پر؛ جھڑکنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا؛ بوڑھے لوگوں کی شناخت ہی ہوتی ہے؛ لیکن بہت بوڑھے اور ساتھ ہی کم زور اور بیمار ہونے کے باوجود حضرت کی یہ خوبی رہی کہ وہ صحت مند انسانوں سے زیادہ متحمل مزاج رہے۔ ہر طرح کے انسانوں کو برداشت کرنے کی اُن کی ایسی خو میں نے بہت کم بڑوں میں دیکھی ہے اور جن میں دیکھی ہے وہ بہت بڑے تھے، حضرت مرحوم بھی اُنھی میں سے ایک تھے۔ وہ چھوٹے بڑے اوراچھے بُرے ہر ایک سے اِس طرح پیش آتے تھے کہ اُس کو لگتا تھا مہتمم صاحب اُسی کو زیادہ چاہتے ہیں، گویا اُن کا موقف یہ تھا:

چلو کہ ہنس کے گلے لگائیں کانٹوں کو

کہ صرف پھول ہی پروردئہ بہار نہیں

صبر وتحمل اُن کی زندگی کے بہت بڑے قدر کی حیثیت رکھتا تھا، کہنا چاہیے کہ زندگی کے اکثر معرکے، اُنھوں نے اِسی سے فتح کیے۔ بعض دفعہ بعض لوگوں نے اُن کے ساتھ سخت کلامی یا اُن کے خلاف سخت نگاری کی؛ لیکن اُنھوں نے اس کاجواب صبر وتحمل اور سکوتِ محض سے دیا۔ بہت سے لوگوں کو اُن کی طرف سے اُن لوگوں پر سخت غصّہ آیا، جنھوں نے اُن کے ساتھ ناروا رویّہ اختیار کیا اور اُن کے ساتھ درشت گوئی کی یا درشت نگاری کی؛ لیکن خود اُنھیں کچھ بھی نہیں آیا؛ کیوں کہ وہ اپنا انتقام لینے کے لیے مخلوق ہی نہ ہوے تھے۔ وہ دیانتاً جو سمجھتے تھے وہی کرتے تھے، اپنا معاملہ اللہ سے درست رکھنے کی کوشش کرتے تھے، اِسی لیے دارالعلوم کو اُن سے جو فیض پہنچا، اُس کی ابتداے منزل میں کسی کو توقع نہ تھی اور دنیا سے اِس حال میں گئے کہ اب لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اکتسابات اور فیضان کا یہ تسلسل باقی رہے گا کہ نہیں؛ کیوں کہ نفس کشی اور ناپسندیدگی اور مکروہات کا ایسا بلانوش؛ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہوتا ہے:

منزل پہ مجھ کو دیکھ کے حیراں تو سب ہوے

لیکن کسی نے پاؤں کے چھالے نہیں دیکھے

وہ دارالعلوم کے معاملات میں بھی اِسی لیے بہ عجلت کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے؛ کیوں کہ عجلت پسندی، جذباتیت، سریع الانفعالی سے وہ ناآشنائے محض تھے۔ بہت خوشی اور بہت غم کی وجہ سے بہت زیادہ مثبت اور منفی طور پر متاثّر ہوجانا، اوراُس مثبت اور منفی تاثّر کے نتیجے میں کوئی کام کرگزرنا اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ راے، فکر اور سوچ کو بھی اُسی طرح پکاتے تھے، جس طرح دیر میں اور بہ مشکل گلنے والی چیز کو تادیر اور کئی زاویوں سے پکایا جاتا ہے۔ اِس کی وجہ سے بعض دفعہ وہ اُن باتوں کے لیے بھی بہ عجلت فیصلہ نہیں لے پاتے تھے، جن کے حوالے سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ معمولی چیزیں ہیں اور اِنھیں تو مہتمم صاحب کو ضرور ہی کرلینا چاہیے۔ لوگوں کے نزدیک اُن باتوں میں دیرکرنے سے نقصان کا پہلو مُتَصَوَّرْ رہتا تھا؛ لیکن حضرت کے نزدیک خسارے کا کوئی پہلو نہیں ہوتا تھا؛ کیوں کہ اُن کا اِیمان تھا کہ جو کام بھی بہت سوچ سمجھ کے کیا جائے، اُس میں کسی نقصان کا کوئی اِحتمال نہیں ہوتا، سارا نقصان اُن کاموں میں ہوتا ہے جو بہ عجلت اور بے سوچے کرلیا جاتا ہے۔

راقم کا خیال ہے کہ مہتمم صاحب کی درازیِ عمر میں جہاں اُن کی نیکی، خدا کی حکمت اور دارالعلوم کے لیے، اُن سے تادیر کام لینے کی سعادت سے اُنھیں بہرہ ور کیے رہنے کی اُس کی مشیت کا دخل تھا، وہیں اُن کی یہ خوبی بھی ظاہری سبب کے درجے میں کارفرما رہی کہ وہ بڑے نازک سے نازک وقت میں بہ عجلت اور بار بار مُتَاَثِّرْ ہونے کے مریض نہیں تھے۔ جہاں وہ بڑے دماغ کے انسان تھے وہیں وہ بڑے مضبوط اعصاب کے آدمی بھی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ شروع سے ہی علم وتدریس کو اپنا مشغلہ بناتے، تو شاید وہ بڑے دانش ور وبصیرت مند و بصیرت افروز مدرس ہوتے اور اُن کے علم وفکر کے نتائج بہت کار آمد اور اُن سے استفادہ کرنے والے طلبہ گہری سوچ، سنجیدہ راے اور دانش مندانہ غور وفکر کے حامل ہوتے اور خود اُن کی خاموشی گویائی میں تبدیل ہوکر، علم وفکر کے موتی رولنے میں مددگار ہوتی اور اُمت اورملت کے لیے بڑے فائدے کا ضامن ہوتی۔

حضرت رحمة اللہ علیہ بہت مہمان نواز تھے۔ مہمان نوازوں کا تناسب انسانی معاشرے میں بہت زیادہ نہیں، تو بہت کم بھی نہیں ہوتا؛ لیکن اصل چیز جو ایک مہمان نواز کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ مہمان نوازی کا سلیقہ اور مہمان نوازی کی قدروں اور آداب پر کاربند رہنے کی توفیق ہے۔ حضرت مہتمم صاحب پرانے زمین دار تھے، شرافت نسبی کے بھی حامل تھے کہ وہ صدیقی النسب تھے، وہ خلقتاً حلیم وکریم و شریف تھے، سخاوت وکرم گستری اُنھیں موروثی طور پر حصّے میں ملی تھی، رکھ رکھاؤ اور روایات وتہذیب کے آدمی تھے، سیرچشمی وکشادہ دلی اور فیاضی سے اُن کا خمیر اٹھا تھا، عالی حوصلگی ہمیشہ اُن کے ہم رکاب رہتی تھی اور میزبانی کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے اسباب بھی اللہ نے اُن کے لیے مُہَیَّا کررکھے تھے کہ مادّی وسائل کی بھی کمی نہ تھی (اللہ پاک اپنے فضلِ خاص سے، اُن کے پس ماندگان کے لیے بھی یہ وسائل افزودگی کے ساتھ باقی رکھے) پھر یہ کہ انھوں نے اپنے سلف کو میزبانی کے سارے آداب برتتے ہوے دیکھا اور سیکھا تھا؛ اِس لیے وہ صحیح معنی میں مہمان نواز تھے۔ وہ دسترخوان پر بیٹھے سارے مہمانوں تک دسترخوان کے سارے مشمولات کے پہنچنے کو یقینی بناتے، ڈھکی ہوئی روٹیوں میں سے گرم گرم روٹیاں ہر ایک کی طرف اپنے ہاتھ سے بڑھاتے، ہر ایک کی پلیٹ میں ہر طرح کے سالن اپنے سے ڈالنے کی کوشش کرتے، مہمانوں کا کھانے کے دوران ’’حوصلہ‘‘ بڑھاتے کہ خود بھی آہستہ آہستہ آخرتک اُن کے ساتھ کچھ نہ کچھ لیتے رہتے اور زبان سے بھی اور ماکولات لینے کے لیے اُن پر زور ڈالتے۔ پھر یہ کہ ہرطرح کی چیزیں دسترخوان پر وافر مقدار میں ہوتیں، جس سے مہمانوں کا ’’حوصلہ‘‘ کھانے کے لیے از خود مہمیز ہوتا، دسترخوان کا ماحول ایسا تشکیل دیتے کہ کسی مہمان کو کھانے میں تکلف ہوتا نہ شرمندگی ہوتی۔ بہت سے ’’مہمان نواز‘‘ دسترخوان پر ساری چیزیں چن کے مہمانوں کو دسترخوان پر بٹھادیتے ہیں اور کھانے کے لیے ذرا بھی ترغیب و تشویق کا رویہّ نہیں اپناتے، جیسے اُن کا اصلی مقصد کھانوں اور برتنوں کی نمایش تھی جو ہوچکی، اب مہمان کچھ لیں یا نہ لیں، اُن کی بلا سے۔

اُن کی مشہور آم کی سالانہ دعوت، جس میں اساتذہ واَعیانِ شہر اور سرکاری اہل کاروں کی ایک تعداد بھی شرکت کرتی تھی، ہی اُن کی پہچان نہ تھی؛ بل کہ اُن کی اصل شناخت اُن کا وہ دسترخوانِ ضیافت تھا جو وقفے وقفے سے اُن کے دارالعلوم والے کمرے میں اور تقریباً ہمہ روز اُن کے گھر پر بچھا کرتا تھا۔

مہتمم صاحب طلبہ اور عام واردین وزائرین سے، جن کی دارالعلوم میں کثرت رہتی ہے اور جن میں عموماً ناخواندہ اور بے سلیقہ لوگ ہی زیادہ ہوتے ہیں، بڑی شفقت اور کھلے پن سے ملتے تھے۔ بعض دفعہ تبلیغی جماعت کا کوئی بڑا وفد دفتر اہتمام میں آگھستا کبھی کبھی اس میں ۱۰۰، ۵۰ آدمی بھی ہوتے، ہر ایک اُن سے سلام ومصافحے کا خواہش مند ہوتا، مہتمم صاحب بڑے تحمل اور بردباری وخوش اخلاقی سے ہر ایک کے سلام کا جواب دیتے اور مصافحہ کرتے، اِسی طرح بعض دفعہ دارالعلوم یا کسی اور جگہ کے طلبہ کا وفد اُن کے پاس اچانک آجاتا اور ہر ایک سلام ومصافحہ کرتا اور آپ ذرا بھی برا نہ مانتے، خواہ کتنے ہی ضروری کام میں لگے ہوں؛ لیکن کسی سے بھی کام کے بیچ میں ہی خوش دلی سے مل لیتے۔ طلبہٴ دارالعلوم میں سے کوئی بھی دفتر اہتمام میں بہ راہ راست اُن کے پاس آجاتا اور اپنے کسی ضروری کاغذ پر دستخط کا خواہش مند ہوتا، تو آپ کبھی بھی تنگ دل نہ ہوتے۔ ایسے موقعوں پر کبھی یہ راقم ہوتا، تو دل ہی دل میں کڑھتا کہ حضرت ہر ایک کو ہر وقت گوارا کرلیتے ہیں، اُن کی جگہ اگر یہ راقم ہوتا، تو اِس کے لیے اِس صورتِ حال کو گوارا کرنا مشکل ہوتا، پھر اس کو معاً خیال آتا کہ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے اِنھیں دارالعلوم ایسے الہامی ادارے کے منصبِ اہتمام پر بٹھا رکھا ہے نہ کہ راقم جیسے زود رنج کو۔

حضرت مرحوم کو اللہ نے خوش حالی دی تھی، لیکن دارالعلوم کے تیس سالہ دو رِاہتمام میں، اِس راقم نے اُنھیں ٹیپ ٹاپ کی زندگی گزارتے ہوے کبھی نہیں دیکھا۔ وہ چاہتے تو اچھے سے اچھا لباس اختیار کرسکتے تھے؛ لیکن اکثر بہت معمولی کپڑے زیبِ تن فرماتے، بعض دفعہ گرمی کے دنوں میں، اِس راقم نے اُن کے سفید کرتوں میں پیوند لگے ہوے بھی دیکھے، اُن کے کرتوں کے کالر بعض دفعہ انتہائی بوسیدہ، بل کہ لب کشا نظر آئے، سادہ سی دوپلی ٹوپی جو صالحینِ دارالعلوم کا امتیاز رہا ہے استعمال فرماتے، رہایش گاہ میں بھی سادگی تھی، کھڑکیوں پر عام قسم کی بانس کی تیلیوں کی چق پڑی رہتی تھی، منتظمین کے اِصرار کے باوجود بھی اُن میں لوہے یا پلاسٹک کی جالیاں ڈالوانا پسند نہیں فرمایا۔ زمین پر بھی معمولی سا فرش اور ایک پرانی قالین بچھی رہتی تھی، بڑے بڑے مہمانوں: علما، قائدین اور اَتقیا وصالحین کا اپنی اسی معمولی رہایش گاہ میں استقبال کیا اور اُنھیں کبھی کسی خفت کا اِحساس نہ ہوا؛ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ دارالعلوم کے اُن کے اَساتذہ ومشائخ اِس سے بھی معمولی اور سادہ زندگی گزارتے تھے۔اِس سچائی کو جانتے تو ہم سبھی لوگ ہیں؛ لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو کشادگی، خوش حالی وفارغ البالی اور مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود، عملی طور پر اُن کی سیرت پر گام زن ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہوپاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے دارالعلوم کے اس عالی مقام منصب کے معیار پر اُترنے کی نہ صرف کوشش کی؛ بل کہ اِس حد تک اُترے کہ اب ہر ایک کی زبان پر ہے:

کون ہوتا ہے حریفِ مےِ مرد افگنِ عشق

ہے لبِ ساقی پہ مکرر یہ صَلا میرے بعد

حضرت مرحوم ویسے تو کئی سال سے خاصے کم زور تھے، جب سے اُن کے کولھے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، چہرے اور پاؤں پر بھی اکثر ورم رہتا تھا، آنکھوں میں نزولِ آب کی بھی شکایت تھی؛ لیکن اِس کے باوجود وہ دو ایک سال قبل تک بہت پابندی سے دفتر اہتمام میں صبح وشام کے مکمل دورانیوں میں تشریف لے جاتے اور سارے ضروری کام انجام دیتے تھے۔ زیادہ کم زوری اورمعذوری کے بعد جب چلنا پھرنا دشوار ہوگیا تھا، دارالعلوم میں اپنے حجرے ہی میں تشریف رکھتے تھے اور دارالعلوم کے کام کے اوقات میں سارے اہل کار اپنے اپنے ضروری کاغذات پر دست خط اور منظوری وہیں جاکے حاصل کرلیتے تھے۔ عرصے سے حضرت کا یہی معمول رہا۔ شعبان ۱۴۳۱ھ کی شوریٰ کے بعد اپنے دولت کدے بجنور تشریف لے گئے، وہاں پھر پھسل گئے اور کولھے کی ہڈیوں میں پھر شدید تکلیف ہوگئی، چلنا پھرنا تو پہلے سے ہی مشکل تھا، اب اُٹھنا بیٹھنا بھی دشوار تھا، خادم کے سہارے اُٹھائے بیٹھائے جاتے تھے، ہڈیوں کا مجموعہ بن گئے تھے۔ ۱۳/ذی الحجہ ۱۴۳۱ھ کو ۱۱بجے صبح میں ہم چند اساتذہٴ دارالعلوم، اُن کی عیادت اور زیارت کو پہنچے، تو حضرت کے صاحب زادے برادرمکرم مولانا انوارالرحمن قاسمی نے فرمایا: اچھاہوا کہ آپ مہتمم صاحب سے ملنے آگئے، کل ہی کی بات ہے کہ اُنھوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ تم نے قربانی کے گوشت اُن سارے لوگوں میں تقسیم کیے کہ نہیں جن میں، میں تقسیم کیاکرتا تھا، پھر فرمایا: مولانا نور عالم اور مفتی سعید صاحب یہاں آئے تھے کہ نہیں؟ میں نے عرض کیا: حضرت! یہ دونوں تو ابھی تک نہیں آئے ہیں، شاید آنے والے ہوں۔

بھائی انوار سے یہ سن کر میرے دل میں یہ خطرہ گزرا کہ شاید حضرت کا وقتِ آخر نہ آپہنچا ہو، کیوں کہ موت سے پہلے عموماً آدمی اُن لوگوں کو یاد کرنے لگتا ہے، جن سے کسی طرح کا خصوصی ربط وتعلق اُس کو رہتا ہے۔ راقم کی سعادت کی بات ہے کہ اُن کی موت سے صرف چند روز پہلے وہ اُن سے دنیا کی اِس زندگی میں مل آیا۔

چہارشنبہ: یکم محرم ۱۴۳۲ھ مطابق ۸/دسمبر ۲۰۱۰ء کو خدا معلوم کیوں راقم کے دل میں شدید تقاضا ہوا کہ شعبان ۱۴۳۱ھ کے بعد کئی ماہ سے دفترِ اہتمام نہیں جاسکا، آج ضرور جاؤں گا، دیکھیں وہاں حضرت مولانا غلام رسول خاموش رحمة اللہ علیہ کارگزار مہتمم دارالعلوم کی وفات کے بعد(۵) کیسا نقشہ ہے، دونوں نائب مہتمم: حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی اور صدیقِ مکرم مولانا عبدالخالق سنبھلی سے بھی ملاقات ہوجائے گی، بالخصوص آخر الذکر سے کہ وہ ابھی چند روز قبل حج کے سفر سے واپس آئے تھے۔ دفتر اہتمام میں جھانک کے دیکھا، تو وہاں توقع کے خلاف سنّاٹا تھا، پیش کار صاحب نے بتایا کہ آج دفتر تعلیمات میں مجلسِ تعلیمی کی میٹنگ ہے، اِس لیے دونوں حضرات وہیں تشریف لے گئے ہیں۔ صبح کے دس بج رہے تھے، پیش کار صاحب کی رائے ہوئی کہ آپ آدھا پون گھنٹہ رک سکتے ہوں، تو دفتر اہتمام میں تشریف رکھیں، ساڑھے دس بجے کے بعد یا تو یہ دونوں حضرات خود ہی تشریف لے آئیں گے، یا میں اِنھیں آپ کی آمد کی اطلاع دے دوں گا، تو بالضرور آجائیں گے؛ کیوں کہ اُس وقت تک میٹنگ ضرور ختم ہوجائے گی۔ میں اہتمام کے ہال میں دروازے کے پاس دائیں طرف بیٹھ گیا، نہ معلوم کیوں شدید تقاضا ہوا کہ بے کار بیٹھنے کی بہ جائے قرآن پاک کی زبانی تلاوت کروں۔ راقم نے پہلے سورہٴ یٰسین شریف پڑھی اور پھر انتہائی لگن سے کئی سوبار لَا اِلٰہَ الاَّ أَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمینَ کا ورد کرتا رہا۔ اتنے میں ۱۱بج گئے، تو اُٹھا کہ پیش کار صاحب کو یہ کہ کر چلا جاؤں کہ اِن دونوں حضرات سے راقم کا سلام کہہ دیجیے گا اور بتادیجیے گا کہ عرصے کے بعد ملاقات کو آیا تھا؛ لیکن اِس سعادت سے محروم رہا کہ اِتنے میں مولانا عبدالخالق سنبھلی دفتر تعلیمات سے تیزی سے واپس آئے اور بتایا کہ ابھی ابھی اطلاع آئی ہے کہ ذرا پہلے حضرت مہتمم صاحب مولانا مرغوب الرحمن صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، وہ دودھ لے رہے تھے کہ اُنھیں اُچھوآیا اور اسی دوران اُنھوں نے آخری سانس لی۔اُنھوں نے کہا کہ بھائی انوار کی راے جنازہ یہاں دارالعلوم لانے کی ہورہی ہے؛ لیکن بجنور میں اعزّا اور اہلِ شہر وہیں تدفین کے خواہش مند ہیں۔ بھائی انوار مولانا سیّد ارشد مدنی سے (جو جنوبی افریقہ کے سفر پر ہیں) اور بھائی محمود (مولانا محمود مدنی بن مولانا سیّد اسعد مدنی) نیز اپنے بڑوں سے مشورہ کررہے ہیں، بہ جلد یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ تدفین کہاں ہو؟ ہم لوگ اِنا للہ پڑھتے ہوے دفتر تعلیمات کی طرف چل پڑے کہ بہت سے اساتذہ وہیں تھے، دل نے کہا کہ شاید اِسی لیے اِس راقم کو خداے کریم نے سورہٴ یٰسین اور آیت کریمہ پڑھنے کی طرف متوجہ کردیا تھا،کیوں کہ وہی وقت وفات کا وقت تھا۔ اساتذہ کی بڑی تعداد کو شدہ شدہ وفات کی خبر مل گئی اور بہت سے دفتر تعلیمات میں جمع ہوکے ایک دوسرے کی تعزیت کرنے لگے، بغیر اعلان کے یہ روح فرسا خبر سارے دارالعلوم میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، بہت سے طلبہ بجنور کو روانہ ہونے لگے۔ دارالعلوم کا سارا ماحول غم و اندوہ میں ڈوب گیا، ہر ایک کو ایسا لگا کہ وہ یتیم اور بے سہارا ہوگیا ہے۔ دارالعلوم کی فضا اجڑی اجڑی سی محسوس ہونے لگی۔ حضرت مرحوم کو دارالعلوم سے جو عشق تھا، اُس کی خدمت کو عبادت کی طرح جس طرح انجام دیتے تھے، سارے اساتذہ وطلبہ وملازمین سے اُنھیں جو پیار تھا؛ اُس کا کچھ اندازہ آج ہورہا تھا۔

بالآخر بھائی انوار نے بڑوں کے مشورے سے جنازہ دیوبند لانے کا فیصلہ کرلیا، جو دارالعلوم کے تمام اساتذہٴ وملازمین وطلبہ کی خواہش کے عین مطابق تھا، دارالعلوم میں مائک سے بہ عجلت یہ اِعلان کئی بار دہرایا گیا کہ حضرت مہتمم صاحب مولانا مرغوب الرحمن کا انتقال ہوگیا ہے اور شب میں ۹ بجے نماز جنازہ اِحاطہٴ مولسری میں ادا کی جائے گی؛ لیکن شدید بھیڑ کی وجہ سے نیز بعض علما اور اہلِ قرابت کے انتظار میں نماز جنازہ ۱۱ بجے شب میں ادا کی جاسکی؛ کیوں کہ عصر کے بعد جنازہ بجنور سے روانہ ہوا اور ۹ بجے شب میں دیوبند پہنچ سکا؛ اِ س لیے کہ راستے میں ہر جگہ علما واہلِ تعلق نے روک روک کے دیدار کرنے پر اِصرار کیا۔ تقریباً ۵۰ پچاس ہزا رعلما وطلبہ واہلِ شہر نے نمازِ جنازہ وتدفین میں شرکت کی۔ دارالحدیث دونوں طرف کی درسگاہیں، اِحاطہٴ مولسری، اِحاطہٴ باغ،اِحاطہٴ مطبخ، اِحاطہٴ دفاتر، صدر گیٹ کے آگے کا میدان صدسالہ بلڈنگ تک، دفتر تعلیمات کے سامنے کی چھت دفتر اہتمام تک؛ کچھا کھچ بھری ہوئی تھی، اِس راقم نے اور کئی اساتذہ اور ملازمین نے بالائی منزل پر دفتر اہتمام کی گیلری میں نماز میں شرکت کی۔ ٹھیک ۱۲بجے شب میں تدفین سے فراغت ہوئی۔

نماز جنازہ اور تدفین میں اساتذہ وطلبہ کی محبت وعقیدت دیدنی تھی، ہر ایک ذوق وشوق اور غم والم کے شدید جذبات سے مغلوب نظر آرہا تھا۔ نمازجنازہ برادرمکرم مولانا انوارالرحمن قاسمی نے پڑھائی، اِس سے قبل بجنور شہر کی عیدگاہ میں بہت بڑے مجمع نے نماز جنازہ پڑھی، جس کی امامت جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مراد آباد کے مولانا مفتی شبیر احمد صاحب نے پڑھائی۔

صبح کو 8:30 بجے دارالعلوم کی حضرت مرحوم کی تعمیرکردہ پرشکوہ مسجدِ رشید کے کشادہ ہال میں دارالعلوم کی طرف سے تعزیتی جلسہ ہوا، مسجد اپنی کشادگی کے باوجود مکمل طورپر بھری ہوئی تھی، اساتذہ اور کئی ارکانِ شوریٰ نے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ کئی اساتذہ وارکانِ شوریٰ اپنی تقریر کے دوران روپڑے اور اُن کی آواز شکستہ وغم آلود ہوجانے کی وجہ سے ناصاف ہوگئی۔ دوسرے روز اہلِ شہر نے دارالعلوم کے مدرسہ ثانویہ کے میدان میں ایک بڑا جلسہٴ تعزیت منعقد کیا، دیوبند کے دگر سارے مکاتب ومدارس میں یہ سلسلہ کئی روز تک چلتا رہا۔ ملک وبیرون ملک کے مدارسِ اسلامیہ میں ہر جگہ بالخصوص مغربی یوپی کے مدارس ومکاتب وجامعات میں بڑے بڑے تعزیتی جلسے ہوے، بعض فضلاے دارالعلوم نے عین نمازِ جنازہ اور تدفین کے وقت مکہٴ مکرمہ پہنچ کر عمرہ اور طواف کیا، بعض فضلا نے جنازہ قبر میں اتارے جانے کے وقت ملتزم سے چمٹ کر، حضرت کی مغفرت کے لیے دعاکی۔ ملک کے بہت سے مسلم وغیرمسلم قائدین واہل سیاست وحکومت بالخصوص مسلم جماعتوں اور اِداروں کے ذمے داروں نے، دارالعلوم پہنچ کر، دارالعلوم کے موجودہ ذمے داروں سے تعزیت کی اوراپنے اپنے رنج وغم کا اِظہار کیا، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

بٹا ہوا بدن؛ باوقار پیکر؛ دراز قد؛ بڑاسا سر؛ کشادہ پیشانی؛ گھنیریں بھویں؛ داڑھی کے بال کچھ کم گھنیرے؛ کھلتا ہوا گندمی رنگ؛ لمبی اور اونچی ناک؛ چہرے پر معصومیت؛ گفتگو میں نرمی اور دھیماپن؛ برتاؤ میں تہذیب وشایستگی کی تراوش؛ درویشی، سادگی،سنجیدگی، بردباری، شرافت، رکھ رکھاؤ،عالمانہ متانت، رئیسانہ عظمت اور نسبی برتری کی مورت، فکر وتدبر میں سمندر کی گہرائی؛ حسنِ اخلاق میں صحراے ناپیدا کنار کی وسعت؛ صبر اور خاموشی کا پتلا؛ ستایش کی تمنّا سے خلقتاً بے نیاز اور صلے کے پروا سے نا آشناے محض؛ انتہائی بخالت اور بے پناہ سخاوت کے تضاد کا عجیب و غریب مجموعہ: اپنے دسترخوان پر اپنے ذاتی مال کو مہمانوں پر، اور وقتِ ضرورت فقیروں، یتیموں،بیواؤں اور بے سہاروں پر خرچ کرنے میں ’’حاتم طائی‘‘ اور دارالعلوم کے ملی مال کے پیسے پیسے کو بٹورکر رکھنے اور ایک ایک حبّے کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنے اور بادلِ ناخواستہ اُس کے صرف کی اِجازت دینے میں ’’اَشہب‘‘ سے زیادہ بخیل۔ یعنی اپنی ذات میں ایک انجمن، اپنے بعد اپنے جانشین کی تلاش کے لیے، اپنے بعد والوں کو بہت زیادہ سرگرداں چھوڑ جانے والا مردِ بے بدل۔ رَحمَہُ اللہُ وجَعَلَ جنةَ الفردوسِ مَثْوَاہُ۔

یہاں پرایک واقعے کا تذکرہ عبرت اور دلچسپی سے خالی نہ ہوگا: کئی سال پہلے (یعنی سہ شنبہ - چہار شنبہ: ۱۱-۱۲ جمادی الاولی ۱۴۲۳ھ مطابق ۲۳-۲۴/جولائی ۲۰۰۲ء کی شب میں مغرب کی نماز کے بعد تقریباً سواسات بجے) کی بات ہے کہ دارالعلوم کے ایک طالب علم کے ساتھ کسی وجہ سے چند شہریوں نے زدوکوب کا معاملہ کیا، دارالعلوم کے طلبہ کی ایک تعداد نوجوانی کے جوش سے مغلوب ہوگئی اور اُن سے دارالعلوم کے چوراہے کی چند دکانوں کو ذرا بہت نقصان پہنچ گیا، متعلقہ شہریوں کو بہت تکلیف ہوئی اور اُنھوں نے حضرت مرحوم سے بڑھا چڑھا کے اِس معاملے کی شکایت کی، حضرت نے فرمایا کہ آپ تحریری طور پر لکھ کے دیجیے کہ آپ لوگوں کا واقعتا کتنا اور کیا کیا نقصان ہوا ہے؟ اُنھوں نے مبالغے کے ساتھ نقصانات کا اندازہ تحریراً پیش کیا، تو حضرت نے فرمایا: دیکھیے دارالعلوم کو قوم جو چندہ دیتی ہے وہ دارالعلوم کے ضروری مفادات پر خرچ کرنے کے لیے دیتی ہے، یہ حقیر اُس کا امین ہے، اُس میں کوئی خیانت اُس کے لیے جائز نہیں؛ اِس لیے میں دارالعلوم کی رقم سے آپ کے نقصانات کی تلافی نہیں کرسکتا۔ آپ لوگ مہینے دومہینے کا موقع دیجیے کہ میں اپنی زمین کاکوئی حصّہ مناسب قیمت پر فروخت کرکے آپ کے نقصانات کا معاوضہ ادا کرسکوں۔ حضرت کی بات سن کے شہریوں کا وفد آب دیدہ ہوگیا اور اُس نے حضرت سے معافی کی درخواست کی کہ حضرت! ہم لوگوں سے شدید غلطی ہوئی کہ ہم نے آپ کو پریشان کیا اور آپ کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنے۔ ہمیں کوئی معاوضہ نہیں چاہیے۔ دارالعلوم جیسے آپ کا ہے، ویسے ہی ہمارا بھی ہے۔

لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

(اکبراِلٰہ آبادی)

٭٭٭

حواشی:

(۱)            اُس وقت تک گو قانونی حیثیت سے مددگار مہتمم تھے؛ کیوں کہ باقاعدہ مہتمم قانونی طور پر وہ ۲۴-۲۶/شوال ۱۴۰۲ھ = ۱۵-۱۷/اگست ۱۹۸۲ء کی مجلس شوریٰ میں مقرر کیے گئے؛ لیکن چوں کہ دارالعلوم سے عملی طور پر حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کا عمل دخل کئی ماہ قبل ختم ہوچکا تھا، اِس لیے عملاً حضرت مرحوم ہی دارالعلوم کے بااختیار مہتمم کی حیثیت سے امور اہتمام انجام دے رہے تھے۔

(۲)            مجلس شوریٰ منعقدہ ۲۵/رجب ۱۴۰۱ھ مطابق ۳۰/مئی ۱۹۸۱ء نے اُنھیں مددگار مہتمم کے عہدے پر فائز کیا۔ تجویز کا متن حسب ذیل تھا: ’’ایجنڈہ (۳) کی دفعہ نمبر ۷ کے تحت دارالعلوم کے انتظامات کو اُستوار اور مضبوط کرنے کی خاطر شوریٰ نے مولانا مرغوب الرحمن (رکنِ شوریٰ) کو مددگار مہتمم اور مولانا محمد عثمان صاحب کو، نائب مہتمم کی خالی شدہ جگہ پر، نائب مہتمم مقرر کیا اور یہ بھی طے کیا کہ مولانا محمد عثمان صاحب کو نیابتِ اہتمام کے منصب کی تنخواہ دی جائے‘‘۔

مجلسِ شوریٰ منعقدہ ۲۰-۲۱/ربیع الاوّل ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۷-۱۸/جنوری ۱۹۸۲ء نے اُنھیں مہتمم کے اختیارات کے ساتھ مددگار مہتمم کے عہدے پر سرگرمِ عمل رہنے کی ہدایت دی۔ تجویز کا متن مندرجہٴ ذیل تھا: ’’تجویز (۲) ضمن (ج) یہ کہ ۱۹/جنوری ۱۹۸۲ء سے اِس وقت تک کی تحقیقاتی کمیٹی کی بنیاد پر مجلس شوریٰ کوئی فیصلہ کرلے، مولانامرغوب الرحمن صاحب مددگار (ورکنگ) مہتمم، جملہ فرائض واختیاراتِ مہتمم مندرجہ دستور اساسی وتجاویز مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند، بہ حیثیت مہتمم انجام دیتے رہیں گے‘‘۔

شوال ۱۴۰۲ھ مطابق اگست ۱۹۸۲ء میں دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ، جب منصبِ اہتمام سے مستعفی ہوگئے، تو مجلسِ شوریٰ منعقدہ ۲۴-۲۶/شوال ۱۴۰۲ھ = ۱۵-۱۷/اگست ۱۹۸۲ء، بہ مقام مسلم مسافر خانہ نزد چار باغ ریلوے اسٹیشن لکھنوٴ نے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ کو باقاعدہ مہتمم مقرر کیا، تجویز کا متن یہ تھا:

’’تجویز نمبر ۳ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے تحت: شوریٰ مولانا محمد طیب صاحب کا استعفا قبول کرتی ہے اور اُن کی جگہ مولانا مرغوب الرحمن صاحب کو مستقل مہتمم مقرر کرتی ہے۔‘‘

(۳)           حضرت مرحوم کی وفات کا سانحہ بہ روز چہارشنبہ: یکم محرم الحرام ۱۴۳۲ھ مطابق ۸/دسمبر ۲۰۱۰ء کو ۱۰w بجے صبح پیش آیا۔

(۴)           حضرت مرحوم کا سنہٴ ولادت ۱۹۱۴ء مطابق ۱۳۳۲ھ ہے اور وفات یکم محرم ۱۴۳۲ھ مطابق ۸/دسمبر ۲۰۱۰ء ہے؛ اس لیے سنہٴ عیسوی کے اعتبار سے آپ کی عمر ۹۶ سال اور سنہٴ ہجری کے اعتبار سے کم وبیش ۱۰۰ سال ہوتی ہے۔

(۵)           حضرت مولانا کی وفات دارالعلوم کے مہمان خانے میں، جہاں دارالعلوم آمد کے وقت اُن کا قیام رہتا تھا، بہ روز جمعہ سوا پانچ بجے شام: ۲۷/شوال ۱۴۳۱ھ مطابق ۸/اکتوبر ۲۰۱۰ء کو ہوا۔ ۸بجے شب میں اُن کی نمازِ جنازہ اُن کے صاحب زادے مولانا نظام الدین نے پڑھائی، جنازے میں تقریباً تیس ہزار علما وطلبہ وباشندگان شہر نے شرکت کی، ۱۰/بجے شب میں مقبرئہ قاسمیہ میں تدفین عمل میں آئی۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

٭٭٭

---------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1-2 ‏، جلد: 95 ‏، صفر‏، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری‏، فروری 2011ء